تمھارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو تنقیدی جائزہ

 


غزل از جون ایلیا 

تمھارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو 

تمھارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں

بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو

تمھارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں

کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا

یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو

کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی

میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی

کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو


تنقیدی جائزہ:

جون ایلیا اردو شاعری کا بہت بڑا نام ہیں۔ ان کی غزل پہ قلم اٹھانا میرے لیے اعزاز بھی ہے اور امتحان بھی۔ اعزاز اس لیے کہ میں اس قابل ہی کہاں ہوں کہ جون جیسے قد آور شاعر کی شاعری پہ تنقید کر سکوں۔ میں تو تنقید کے میدان میں ایک طفلِ مکتب کی سی حیثیت رکھتا ہوں لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں

وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے

تو یہی سوچ کر میں بھی یہ جرأت کرنے جا رہا ہوں۔ غزل آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ آئیے اس غزل کے ایک ایک شعر پہ اظہارِ خیال کرنے کی گستاخی کرتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں : امرتا پریتم کی نظم ”اج آکھاں وارث شاہ نوں“ کا تنقیدی جائزہ

اس غزل کے پہلے شعر میں جون ایلیا اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ وہ اگر اجازت دیں تو وہ ان کے ہجر کو منانا چاہتے ہیں۔ ہجر منانا کتنی منفرد بات ہے۔ خوشی منانا، سالگرہ منانا، عرس منانا یا تہوار منانا تو سنا تھا مگر ہجر منانا پہلی دفعہ سننے کو مل رہا ہے۔ دیکھا جائے تو ہجر بھی تو زندگی کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کوئی تہوار یا خوشی کا کوئی موقع۔ تو اس لیے کیوں نہ اس اہم حصے کو بھی منا لیا جائے۔ لیکن ہجر منانے کے لیے محبوب سے اجازت طلب کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ محبوب بھلے سلسلے توڑ گیا ہو سبھی جاتے جاتے لیکن جون کی طرف سے اتنے مراسم تو ابھی بھی باقی ہیں کہ وہ اجازت مانگنے کا حق رکھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انھیں ہجر منانے کی اجازت مل گئی ہو گی۔ کیوں کہ انھوں نے ہجر و فراق کو واقعی منایا ہے۔ اور اس طرح منایا ہے کہ اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ

تیرا فراق جانِ جاں عیش تھا کیا میرے لیے

یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی

 لیکن ہجر منانے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا وہ کسی اور سے دل لگا سکتے ہیں۔ حالاں کہ یہ وہی جون ہیں جو کہتے ہیں کہ

داستاں ختم ہونے والی ہے

تم میری آخری محبت ہو

ممکن ہے جون جس سے اجازت طلب کر رہے ہوں وہ ان کی پہلی محبت ہو۔ اور جون اس نہج پہ پہنچ چکے ہوں کہ

دیکھ رہا ہوں سامنے بیٹھی لڑکی کو

سوچ رہا ہوں ایک محبت اور سہی

لیکن اس ایک اور محبت کے لیے وہ اپنے محبوب سے یوں اجازت مانگ رہے ہیں گویا کوئی شوہر دوسری شادی کی اجازت مانگ رہا ہو۔ بہرحال جون نے محبت کی شدت اور ہجر کی تکلیف کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ ردیف ”اگر اجازت ہو“ کا تکرار محبوب کی اجازت کے بغیر کچھ بھی کرنے کی بے چینی کو ظاہر کرتا ہے۔ جون کا یہ اندازِ بیان ان کی مخصوص خودکلامی اور بے چینی کا عکاس ہے جہاں وہ محبت اور آزادی کے درمیان ایک کشمکش محسوس کرتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں : انور زیب انور کی غزل کا تنقیدی جائزہ

دوسرے شعر میں جون کہتے ہیں کہ تمہارے بعد وعدوں اور پیماں کا کوئی مطلب نہیں رہا۔ اب صرف وقت گنوانے کا کام باقی ہے۔ جون کے نزدیک تو زندگی نام ہی وقت گنوانے کا ہے۔ جون فرماتے ہیں کہ

زندگی ایک فن ہے اپنے لمحوں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

جب محبوب چھوڑ کر چلا جائے اور جاتے ہوئے جدائی مقدر کر دے تو زندگی محض وقت گنوانے کا ہی نام ہے۔ اس شعر میں جون نے محبوب کی جدائی کے بعد زندگی کی بے معنائی کو انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے۔ وقت گنوانے کا تصور جدید شاعری کی اس روایت کو آگے بڑھاتا ہے جہاں وقت محض ایک خالی تصور بن کر رہ جاتا ہے۔ جون کے ہاں یہ احساسِ بے کاری اور بے مقصدیت اکثر نظر آتا ہے جو ان کی شاعری کو ایک خاص گہرائی عطا کرتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں : کومل جوئیہ کی غزل کا فکری و فنی جائزہ

تیسرے شعر میں جون فرماتے ہیں کہ اے محبوب! اگر تمھاری اجازت ہو تو تمہارے ہجر کی لمبی راتوں میں کوئی چراغ جلا سکتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ چراغ جلانا شاید ہجر منانے کا ہی کوئی طریقہ ہو۔ تاہم چراغ کئی وجوہات کی بنا پر جلایا جاتا ہے۔ یا تو کسی کی یاد میں۔ اور خاص طور پر کسی فوت شدہ شخص کی یاد میں بھی چراغ جلایا جاتا ہے۔ گویا جون ہجر و فراق کے تکلیف دہ لمحوں میں محبوب کی یاد میں چراغ جلانا چاہتے ہیں۔ چراغ روشنی کے لیے بھی جلایا جاتا ہے۔ ممکن ہے جون روشنی کرنا چاہتے ہوں اور خود کو اس ظلمت سے نکالنے کی کوئی ترکیب لگانا چاہتے ہوں۔ لیکن یہاں بھی وہ محبوب کی اجازت کے محتاج ہیں۔ اس شعر میں جون نے ہجر کی تاریکی اور تنہائی کو بہت خوب صورتی سے چراغ کے استعارے کے ذریعے پیش کیا ہے۔ یہ چراغ شاید یادوں کی روشنی ہو یا پھر کسی نئی امید کی کرن لیکن اسے جلانے کے لیے بھی محبوب کی رضامندی درکار ہے۔

یہ بھی دیکھیں : اسٹیج ڈراما ”دادا جی کی برسی“

چوتھے شعر میں جون کہتے ہیں کہ وہی جنون اور وہی جون ہے لیکن اب شہر نیا ہے۔ یہاں بھی وہ شور مچانا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں تو شور مچانے کا جنون ہے اور یہی ان کی شناخت ہے۔ اس شعر میں جون نے اپنی اس شناخت اور جنون کو برقرار رکھتے ہوئے نئے ماحول میں بھی اپنے وجود کا اعلان کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ شور مچانا جہاں لوگوں کو اکٹھا کرنے کا حربہ ہے وہیں یہ بغاوت اور اظہار کی بھی علامت ہے۔ جون کا یہ انداز ان کی منفرد شاعرانہ شخصیت کو ظاہر کرتا ہے جو ہر حال میں اپنی آواز بلند کرنا چاہتی ہے۔ خاموشی جون کو پسند نہیں۔

یہ بھی دیکھیں: جون ایلیا کا تصورِ زندگی

پانچویں شعر میں جون پوچھتے ہیں کہ دنیا میں بھلا کوئی شخص ایسا بھی ہے جسے مرہم رکھنے کی خواہش ہے؟ نہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے زخم دکھانا چاہتے ہیں۔ اس شعر میں جون نے درد کو بانٹنے کی خواہش اور سماج کی بے حسی کے درمیان ایک تضاد پیدا کیا ہے۔ زخم دکھانا صرف تکلیف کا اظہار ہی تو نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح کا احتجاج بھی ہے۔ ممکن ہے جون اسی لیے زخم دکھانا چاہتے ہوں کہ اظہار اور احتجاج دونوں ہو جائیں۔ گویا ایک تیر سے دو شکار۔ جون کے ہاں یہ درد کا اظہار اکثر ایک فنکارانہ خوب صورتی اختیار کر لیتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں: روزنامہ ذوقِ غزل میگزین

آخری شعر میں جون کہتے ہیں کہ تمہاری یاد میں جینے کی آرزو اب بھی ہے کہ اس طرح وہ اپنا حال سنبھال سکتے ہیں۔ جون کے ہاں یاد ایک الگ موضوع ہے جس پہ پھر کبھی گفتگو کروں گا تاہم یہاں جون نے یادوں کے سہارے جینے کی خواہش اور اپنی ذات کو سنبھالنے کی کوشش کے درمیان ایک کشمکش کو پیش کیا ہے۔ جون کی شاعری میں یہ خود احتسابی اور داخلی کشمکش اکثر نظر آتی ہے جو ان کے کلام کو ایک خاص گہرائی اور سچائی عطا کرتی ہے۔ اس شعر میں بھی وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے محبوب کی یاد کو ہی اپنا سہارا بناتے ہیں۔

تحریر : پروفیسر عامر حسن بُرہانوی 

اگر آپ کو یہ پوسٹ آئی ہو تو کمنٹ میں اپنی رائے ضرور دیں شکریہ 

پروفیسر عامر حسن بُرہانوی کی تحاریر واٹس ایپ پہ پڑھنے کے لیے ان کا واٹس ایپ چینل جوائن کریں: واٹس ایپ چینل لنک

Post a Comment

0 Comments