آئیں لکھنا سیکھیں
قسط نمبر 2
ادب کا تعارف
تحریر : پروفیسر عامر حسن برہانوی
اس سلسلے میں ہم چوں کہ ادب تخلیق کرنے کا فن سیکھنے جا رہے ہیں اس لیے پہلے ہمیں اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ ادب کسے کہتے ہیں؟ ادب کی بہت سی تعریفیں بیان کی گئی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس تین حرفی لفظ کو بیان کے لیے ہزاروں دفاتر درکار ہیں۔ لیکن یہاں میں ادب کی ایک بالکل ہی بنیادی اور ابتدائی تعریف پہ ہی اکتفا کروں گا کیوں کہ میں اپنے قارئین کو الجھانا نہیں چاہتا۔ تو ادب کی آسان لفظوں میں تعریف یہ ہے کہ ایسی تحریر جس میں ادیب (ادب لکھنے والا) اپنے جذبات، خیالات، احساسات اور تصورات کو ادبی انداز میں بیان کرے ادب کہلاتی ہے۔ اس تعریف میں دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ ادیب کیا لکھتا ہے اور دوسرا یہ کہ کیسے لکھتا ہے۔
یہ سلسلہ بھی دیکھیں: سو بہترین سرگرمیاں
تو سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ ایک ادیب، ادب میں کیا لکھتا ہے۔ تو ہم نے تعریف میں پڑھا کہ ادیب اپنے جذبات لکھتا ہے۔ یہ جذبات کسی انسان کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی بے جان شے کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی کیفیت یا حالت کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں یا خود اس کے اپنے متعلق بھی ہو سکتے ہیں۔ ادیب اپنے احساسات لکھتا ہے۔ وہ معاشرے کے رویوں کو جیسے محسوس کرتا ہے ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ وہ معاشرے کے متعلق اپنے تصورات بھی لکھتا ہے۔ اور اپنے خیالات کو بھی کسی کہانی کا روپ دے کر بیان کرتا ہے۔ ادیب اپنے دل کی آواز بھی لکھتا ہے اور معاشرے کی فریاد بھی لکھتا ہے۔ وہ مظلوم کی آہ بھی لکھتا ہے اور عادل کی واہ بھی لکھتا ہے۔ وہ وہ بھی لکھتا ہے جو اس کی انسانی آنکھ دیکھتی ہے اور وہ بھی لکھتا ہے جو اس کی تصور کی آنکھ دیکھتی ہے۔ وہ لکھتا ہے جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے جو کچھ معاشرے میں ہونا چاہیے۔ وہ ظالم کا ظلم بھی لکھتا ہے اور عادل کا انصاف بھی لکھتا ہے۔ وہ محبوب کے چہرے کا بھی نقشہ کھینچتا ہے غریب کی غربت کا بھی تماشا لکھتا ہے۔ وہ امیروں کی شان بھی لکھتا ہے اور غریبوں کا اَتمان بھی لکھتا ہے۔ وہ فطرت کے مناظر بھی لکھتا ہے اور سائنسی فکشن بھی لکھتا ہے۔ الغرض ایک ادیب جو کچھ دیکھتا، محسوس کرتا اور اپنے دل میں اس کے لیے جو جذبات رکھتا ہے لکھ دیتا ہے۔
اب رہا دوسرا سوال کہ ادیب لکھتا کیسے ہے؟ تو جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ وہ اپنی تحریر ادبی انداز میں لکھتا ہے۔ ادبی انداز سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے تصورات کو تشبیہات و استعارات سے مزین کر کے لکھتا ہے۔ تمثیلات کا لباس پہناتا ہے۔ علم بدیع کی صنعتوں سے گزارتا ہے۔ عروض کی چکی میں پیس کر اسے قلوب و اذہان کی خوراک بناتا ہے۔ اور یہی ادبی انداز ہے۔ اسی ادبی انداز کو اسلوب کہتے ہیں۔
یہ سلسلہ بھی دیکھیں: تشبیہات و استعارات کسے کہتے ہیں؟
اسلوب کے حوالے سے مزید تفصیل اگلی اقساط میں اس کے مقام پہ آئے گی۔ تاہم آج کی قسط میں ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ایک ادیب بننے کے لیے یہ سیکھنا بہت ضروری ہے کہ لکھنا کیا ہے اور لکھنا کیسے ہے۔ آئندہ کی اقساط میں انھی دو باتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
یہ سلسلہ بھی دیکھیں: علم بدیع اور اس کی صنعتیں
اگر اس سلسلے سے آپ کو کچھ فائدہ ہوا ہے تو نیچے کمنٹ ضرور کریں نیز اس کا لنک اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں تاکہ اس سے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
0 Comments