انور زیب انور کی غزل ”اس کو بجھا دے، ڈال نہ جلتی پہ تیل تُو“ کا تنقیدی جائزہ

 


انور زیب انور کی غزل ”اس کو بجھا دے، ڈال نہ جلتی پہ تیل تُو“ کا تنقیدی جائزہ

تحریر: عامر حسن برہانوی 


غزل

اس کو بُجھا دے ، ڈال نہ جلتی پہ تیل تُو

تجھ کو جلا نہ دے کہیں اس سے نہ کھیل تُو


صیاد بن گیا ہے کیا ؟ ، مارے گا پرند ؟

 پھرتا تمام وقت جو لیکر غلیل تُو


میں بھی کسی کے وصل کی زنداں میں قید ہوں

تجھ کو بھی وصل جب ہوا کاٹے گا جیل تُو


تُو کود جو پڑا ہے یہ غیروں کے کھیل میں

مجھ کو نہ اس لڑائی میں اب کے دھکیل تُو


اے زیؔب آ جا مل کے سہیں دکھ زمانے کے

کس نے کہا کہ دکھ ترے تنہا ہی جھیل تُو 


تنقیدی جائزہ

انور زیؔب انور کی یہ غزل ایک خوبصورت تخلیقی اظہار ہے جو اپنی فکری گہرائی، تخلیقی ندرت اور روانی کی بدولت ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ اس غزل میں نہ صرف شاعرانہ جمالیات بلکہ عصری سماجی اور انسانی رویوں کی عکاسی بھی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ آئیے اس غزل کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔


فنی جائزہ

اس غزل کے فنی پہلوؤں پر غور کریں تو ہمیں کلاسیکی شاعری کی روایات کا پراثر استعمال نظر آتا ہے۔ بحر میں روانی اور الفاظ کی چناؤ میں نفاست اس غزل کو خاص اہمیت دیتی ہے۔ انور زیؔب انور نے قافیے اور ردیف کے استعمال میں مہارت دکھائی ہے، جو کہ ان کے فن کی پختگی کا ثبوت ہے۔ 

غزل میں تخیل اور اظہار کے درمیان ایک خوبصورت توازن موجود ہے۔ تشبیہات اور استعارات کی برجستگی قاری کو نہ صرف شعر کی سطحی خوبصورتی سے متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے پس پردہ معنویت پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثال کے طور پر:

اس کو بُجھا دے، ڈال نہ جلتی پہ تیل تُو  

تجھ کو جلا نہ دے کہیں اس سے نہ کھیل تُو

یہ شعر بظاہر نصیحت آمیز ہے لیکن اس میں سماجی اور انفرادی سطح پر خوداحتسابی کا پہلو نہایت دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔


فکری جائزہ

انور زیؔب انور کی غزل کی فکری جہت عمیق ہے۔ شاعر نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی سے سمویا ہے، جیسے کہ محبت، قربانی، اور خودشناسی۔ ہر شعر ایک الگ داستان بیان کرتا ہے، لیکن غزل کی مجموعی فضا میں ربط برقرار ہے۔ 


میں بھی کسی کے وصل کی زنداں میں قید ہوں  

تجھ کو بھی وصل جب ہوا کاٹے گا جیل تُو


یہ شعر محبت کے موضوع پر ایک منفرد زاویہ پیش کرتا ہے جہاں وصل کو قید سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شاعر یہاں محبت کے رومانوی تصور سے آگے بڑھ کر اس کے عملی اثرات اور ممکنہ تکالیف پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی طرح آخری شعر:


اے زیؔب آ جا مل کے سہیں دکھ زمانے کے  

کس نے کہا کہ دکھ ترے تنہا ہی جھیل تُو


انسانی ہمدردی، اتحاد اور اجتماعی برداشت کے خوبصورت پیغام کو اجاگر کرتا ہے جو کہ آج کے دور میں نہایت اہم ہے۔


انور زیؔب انور کی شاعری کی خصوصیات

1۔ روانی اور برجستگی: ان کی شاعری میں الفاظ کی روانی اور برجستگی قابل داد ہے۔

2۔ موضوعاتی تنوع: وہ مختلف موضوعات پر گہرائی کے ساتھ لکھتے ہیں جیسے محبت، خودشناسی اور سماجی مسائل۔

3۔ احساسات کی شدت: ان کے اشعار میں جذبات کی شدت اور ان کی سادگی کے باوجود معنوی گہرائی نمایاں ہے۔

4۔ استعارات اور تشبیہات: انور زیؔب انور کی شاعری میں استعمال ہونے والے استعارات اور تشبیہات نہایت بامعنی اور دلکش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کومل جوئیہ کی غزل کا تنقیدی جائزہ

انور زیؔب انور کے تخلیقی فن کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں "شاعرِ بصیرت" کا لقب دیا جا سکتا ہے کیوں کہ ان کی شاعری نہ صرف جمالیاتی پہلوؤں پر مبنی ہے بلکہ انسانی بصیرت اور سماجی شعور کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

مختصر یہ کہ انور زیؔب انور ایک پختہ تخلیقی شاعر ہیں جن کی غزل گوئی میں نہ صرف فنی کمال موجود ہے بلکہ فکری گہرائی بھی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور ایک ایسا ادبی تجربہ فراہم کرتی ہے جو دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔ ان کے فن کی مزید ترقی اور ان کے شعری مجموعے اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہوں گے۔

Post a Comment

0 Comments