اج آکھاں وارث شاہ نوں

 


اج آکھاں وارث شاہ نوں

تحریر: عامر حسن برہانوی


امرتا پریتم کی پنجابی نظم

اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین

اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن

اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا اے زہر ملا

تے اونہاں پانیاں دھرت نوں دتا زہر پلا

دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون

اج پریت دیاں شہزادیاں ، وچ مزاراں رون

اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور

اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور


اردو ترجمہ


آج وارث شاہ سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنی قبر میں سے کلام کرے  

اور عشق کی کتاب کا کوئی اگلا ورق کھولے  

ایک بیٹی پنجاب کی روئی تھی، تو تُو نے لاکھ بین لکھ ڈالے تھے  

آج لاکھوں بیٹیاں رو رہی ہیں، تجھے وارث شاہ کہہ کر پکارتی ہیں  

اٹھ درد کے مونس، اٹھ اور دیکھ اپنا پنجاب  

آج کھیت لاشوں سے بھرے ہیں اور خون سے لبریز ہے چناب 

کسی نے پانچ دریاؤں میں زہر ملا دیا ہے  

اور ان پانیوں نے زمین کو زہر پلا دیا ہے  

زمین پر خون بہتا ہے اور قبریں کھلی ہیں  

آج محبت کی شہزادیاں مزاروں کے اندر رو رہی ہیں  

آج سبھی قیدی بن گئے ہیں، حسن و عشق کے چور  

آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کر، وارث شاہ ایک اور  


امرتا پریتم کی نظم پر مختصر اظہارِ خیال:

امرتا پریتم کی نظم ”اج آکھاں وارث شاہ نوں“ 1947ء کے خونی فسادات کی الم ناکی کو بیان کرتی ہے۔ یہ نظم نہ صرف پنجابی شاعری کا ایک شاہکار ہے بلکہ انسانی المیے کا ایسا نوحہ ہے جس نے تاریخ کی تلخ ترین یادوں کو زندہ رکھا ہے۔ امرتا نے وارث شاہ کو، جو محبت اور انسانی اقدار کا استعارہ ہیں، مخاطب کرتے ہوئے پنجاب کے خونی حالات پر ماتم کیا ہے۔ اور فریاد کی ہے کہ وہ بھی اس ماتم میں ان کا ساتھ دیں۔ کیوں کہ ان کی آواز کی گونج دور دور تک سنائی دیتی ہے۔  

1947 کے فسادات کے دوران لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔ بے شمار خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔ یہ نظم ان فسادات کے نتائج میں ہونے والے مظالم کو بیان کرتی ہے جہاں محبت اور انسانیت کا قتل عام ہوا۔ امرتا وارث شاہ کو یاد کرتی ہیں کیوں کہ وارث شاہ کی ”ہیر“ ایک عورت کا المیہ کا ہے اور پنجاب میں تو لاکھوں عورتوں رو رہی ہیں۔ اسی لیے امرتا چاہتی ہیں کہ وارث شاہ پنجاب کی ان عورتوں کا دکھ بھی لکھے۔ گویا انھیں فی زمانہ عورتوں کے دکھوں کی ترجمانی کے لیے ایک عدد وارث شاہ کی ضرورت ہے۔ 

امرتا پریتم کا فن انسانی درد اور محبت کے اعلیٰ ترین جذبات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نظم میں امرتا نے پنجاب کے درد کو ایک ماں اور بیٹی کے رشتے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے زمین کو ماں اور اس پر بہنے والے خون کو اولاد کی قربانیوں کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ وارث شاہ کو مخاطب کرنا پنجاب کی ثقافت اور روحانی تاریخ سے جڑنے کی ایک کوشش ہے۔ پنج دریا اور چناب کا ذکر اس بات کی علامت ہے کہ یہ خطہ اپنی زرخیزی کے بجائے ظلم و ستم کے نشانات سے پہچانا جانے لگا۔ امرتا کی زبان سادہ لیکن انتہائی مؤثر ہے۔ وہ تاریخ اور جذبات کو اس طرح جوڑتی ہیں کہ پڑھنے والا فسادات کی ہولناکی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔  

یہ نظم محض تاریخ کا نوحہ نہیں بلکہ انسانیت کے ان اصولوں کا ماتم بھی ہے جنہیں 1947 کے فسادات نے چکنا چور کر دیا۔ امرتا نے اس نظم میں بیٹیوں کے درد کو اس شدت سے بیان کیا ہے کہ یہ آج بھی نسوانی حقوق اور انسانی مساوات کے لیے ایک بلند آواز ہے۔  

امرتا کا کلام ان کے اندر موجود محبت، درد اور انسانیت کے جذبات کا آئینہ دار ہے۔ ان کی شاعری میں مرد و زن کے رشتوں کے ساتھ ساتھ زمین اور انسان کے تعلق کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ وارث شاہ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امرتا نے محبت کو نفرت کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر پیش کیا۔  

امرتا پریتم کی یہ نظم ادب کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں انسانی اقدار کے زوال کو انتہائی مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نظم سے ہمیں محبت، انسانیت اور اتحاد کا پیغام ملتا ہے۔ اور یہی تو وہ اقدار ہیں جو ہمیں تاریخ کے سب سے مشکل وقت میں بھی سہارا دے سکتی ہیں۔

Post a Comment

0 Comments