جون ایلیا کا تصورِ زندگی

 


جون ایلیا کا تصورِ زندگی

تحریر: پروفیسر عامر حسن بُرہانوی

جون ایلیا اردو ادب میں ایک ایسی آواز کا نام ہے جو زندگی کے داخلی کرب، بےمعنویت، تضاد اور انسانی شعور کی الجھنوں کو بےمثال شدت اور ذاتی صداقت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کوئی جامد یا حتمی تجربہ نہیں بلکہ ایک ایسا متغیر اور مسلسل شکست و ریخت کا عمل ہے جو فرد کو لمحہ بہ لمحہ تحلیل بھی کرتا ہے اور تعمیر بھی۔ جون ایلیا کی شاعری میں زندگی ایک سوال بھی ہے اور ایک الجھا ہوا پیکرِ خیال بھی ہے۔ اور زندگی ایک ایسی داستان بھی ہے جو سنائی تو جاتی ہے مگر سمجھی نہیں جا سکتی۔ وہ زندگی کو کسی مخصوص معنی یا مقصد کی قید میں نہیں رکھتے بلکہ اسے ایک ایسا کرب ناک عمل سمجھتے ہیں جس میں انسان مسلسل تلاش میں ہے مگر جس چیز کی تلاش ہے وہ کبھی ہاتھ نہیں آتی۔ اسی تصور کو واضح کرنے کے لیے جون کا یہ شعر ایک بنیادی اعلان کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ

زندگی کیا ہے اک کہانی ہے

یہ کہانی نہیں سنانی ہے

امرتا پریتم کی نظم ”اج آکھاں وارث شاہ نوں “ کا تنقیدی جائزہ 

یہ شعر جون ایلیا کے ہاں زندگی کی فکری نوعیت کا نقطۂ آغاز ہے۔ وہ زندگی کو ”کہانی“ قرار دیتے ہیں یعنی ایک ایسا بیانیہ جو ابتدا، وسط اور انجام رکھتا ہے مگر وہ فوراً ہی اس کہانی کو سنانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ گویا وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے تجربات اتنے ذاتی، پیچیدہ اور ناگفتنی ہیں کہ انہیں دوسروں کے ساتھ بانٹنا نہ صرف ممکن ہی نہیں بلکہ شاید بےمعنی بھی ہے۔ اس بات سے ایک ایسا داخلی تنہائی کا احساس ابھرتا ہے جو جون کے کلام کا بنیادی حوالہ ہے۔ گویا زندگی کو سمجھنا مشکل نہیں بلکہ اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ اسی داخلی تنہائی اور پیچیدگی کو وہ ایک اور مقام پر ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں کہ

زندگی ایک فن ہے اپنے لمحوں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

یہاں وہ زندگی کو ”فن“ کہتے ہیں مگر کس چیز کا فن؟ لمحوں کو گنوانے کا۔ یہ ایک نہایت دل شکن مگر فلسفیانہ خیال ہے کہ زندگی محض وقت گنوانے کا نام ہے اور یہ گنوانا بھی ایک فن ہے یعنی ہر شخص اسے اپنے انداز میں کرتا ہے۔ یہ نظریہ ہمیں وجودی فلسفے کے اس مرکزی نکتہ کی یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا کوئی خارجی مقصد نہیں ہے اور انسان خود اپنی آزادی کے بوجھ تلے زندگی کے لمحوں کو ”فنکارانہ“ انداز میں جیتا یا گنواتا ہے۔ اس شعر کو پہلا شعر مکمل کرتا ہے کہ اگر زندگی کہانی ہے تو وہ ایسی کہانی ہے جس کا انجام گمشدگی اور زیاں ہے۔

احساسِ کمتری سے چھٹکارا کیسے پائیں؟

جب لمحے گنوانے ہی کو فن سمجھ لیا جائے تو انسان کی سوچ کا مرکز اُس ”کچھ“ کی تلاش میں لگ جاتا ہے جس کے لیے وہ یہ سب سہتا ہے۔ مگر جب وہ ”کچھ“ بھی ایک دھوکہ بن جائے تو جون کا کرب اور بھی گہرا ہو جاتا ہے جس کی جھلک اس شعر میں نمایاں ہے کہ

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے

وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

علم بدیع سیکھیں

یہاں جون ایک گہرے وجودی سوال سے نبردآزما نظر آتے ہیں کہ آخر وہ کون سا محبوب، کون سا مقصد یا کون سی ہستی ہے جس کی تمنا میں پوری زندگی گنوا دی گئی مگر اسے کبھی دیکھا تک نہیں؟ دیکھا جائے تو یہ سوال اپنے دامن میں مذہبی، رومانوی اور فلسفیانہ ہر پہلو سے ایک معنی رکھتا ہے۔ ایک طرف یہ خدا کے تصور پر ایک وجودی سوال ہے اور دوسری طرف انسانی تعلقات کی اس ادھوری فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ جن کی تکمیل کبھی ممکن نہیں۔ یہ شعر ماقبل اشعار سے اس طرح مربوط ہے کہ جہاں پہلے زندگی کو کہانی اور لمحوں کو گنوانے کا فن بتایا گیا وہاں اب اس فن اور کہانی کے مقصد پر سوال اٹھا دیا گیا ہے۔ یہاں سے جون ایلیا کی مایوسی ایک نئے دائرے میں داخل ہوتی ہے جہاں وہ زندگی سے مکمل بیگانگی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں

اب بھی تم میری زندگی ہو کیا؟

خود آگاہی کورس مکمل آڈیو میں ڈاؤنلوڈ کریں

یہ شعر انسانی تعلقات کی بے ثباتی اور شکست خوردگی کا بھرپور المیہ ہے۔ جون اپنی زندگی گنوانے کے بعد اب زندگی کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں اور محبوب کو مخاطب کر کے اس کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں کہ اب جو اگر میری زندگی ہی نہیں رہی تو کیا تم اب بھی میری زندگی ہو؟ یہ شعر ایک نفسیاتی بحران کی تصویر ہے جس میں فرد نہ زندگی میں ہے نہ محبوب میں بلکہ ایک ایسی خلا میں ہے جہاں احساس، شعور اور تعلقات سب اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان خود سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جون کی یہ بیگانگی ہمیں ان کے اگلے شعر کی طرف لے جاتی ہے جہاں وہ زندگی کے روزمرہ عمل، یعنی ”بسر ہونے“ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ

زندگی کس طرح بسر ہو گی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

علم بیان سبق نمبر 1

یہاں شاعر زندگی کے تسلسل سے تھک چکا ہے۔ اب وہ پوچھتا ہے کہ زندگی کیسے کٹے گی جب دل محبت میں بھی نہیں لگ رہا۔ گویا وہ تمام روایتی سہاروں کو کھو چکا ہے۔ مذہب، عشق، سماج، سب بےمعنی ہو چکے ہیں۔ یہ شعر پچھلے شعر سے مربوط ہے کیوں کہ وہاں زندگی کا انکار تھا اور یہاں اُس زندگی کے جاری رہنے پر حیرت۔ جون کا یہ انداز بتاتا ہے کہ وہ فرد کو ایسے لمحے میں لا کھڑا کرتے ہیں جہاں کوئی سہارا، کوئی مفر اور کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ اور آخر کار جون اس وجودی اذیت کا مکمل اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ

جو گزاری نہ جا سکے ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

یہ شعر جون ایلیا کے تصورِ زندگی کا نچوڑ ہے۔ یہ ایک ایسی زندگی کا بیان ہے جو نہ جینے کے قابل تھی اور نہ چھوڑنے کے لائق تھی بلکہ یہ ایک مسلسل اذیت اور ایک ایسی کیفیت تھی جس سے نہ فرار ممکن تھا نہ تسکین۔ اس بیان میں وہی فلسفیانہ پیغام چھپا ہے جو کیرکیگارڈ، ژاں پال سارتر اور البرٹ کامو جیسے وجودی مفکرین دیتے ہیں کہ زندگی ایک بوجھ ہے۔ ایک تکلیف دہ سچائی ہے مگر اسے جھیلنا ہی فرد کی سب سے بڑی مزاحمت ہے۔

اشعار کی تشریح کا فن

یوں جون ایلیا کی شاعری میں زندگی ایک ایسی کہانی ہے جو نہ تو مکمل ہے اور نہ ہی قابلِ بیان۔ وہ ایک ایسا فن ہے جو زیاں کے جمال سے آشنا ہے۔ ایک ایسی تمنا جو ہمیشہ ادھوری رہتی ہے اور ایک ایسا کرب ہے جو فرد کو ہر لمحہ تحلیل کرتا ہے۔ جون کے نزدیک زندگی ایک المیہ ہے مگر ایسا المیہ جو اپنی گہرائی میں حسن بھی رکھتا ہے۔ ایک ایسا حسن جو شعور کے تیکھے کنویں میں چھپا ہوا ہے اور جسے صرف وہی پا سکتا ہے جو خود کو مکمل طور پر اس کھائی میں جھونک دے۔ یہی جون ایلیا کا تصورِ زندگی ہے ایک شعوری المیہ اور ایک بامعنی بے معنویت۔

📚 اپنی تحریری ضروریات کے لیے مکمل رہنمائی اور پیشہ ورانہ خدمات! ✍️  

کیا آپ کسی بھی موضوع پر مضمون، تقریر، کالم، یا کہانی لکھوانا چاہتے ہیں؟  

کیا آپ کو پرائمری سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک کی اردو اور اسلامیات کی کتابوں کے نوٹس یا مشقی حل درکار ہیں؟  

کیا آپ نظموں، غزلوں، افسانوں، ناولوں پر تبصرہ، تجزیہ، یا تنقیدی جائزہ چاہتے ہیں؟  

کیا آپ بی ایس اردو/اسلامیات کی اسائنمنٹس یا ایم فل/پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کے لیے مدد چاہتے ہیں؟

🎯 ہم آپ کی ہر تحریری ضرورت کو پیشہ ورانہ انداز میں پورا کریں گے!  

📖 ہماری خدمات:  

✔️ مضامین، تقاریر، کالمز، کہانیاں (ہر موضوع پر)  

✔️ اسکول و کالج کی کتابوں کے نوٹس (اردو + اسلامیات)  

✔️ ادبی تنقید و تجزیہ (نظم، غزل، افسانہ، ناول)  

✔️ بی ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی لیول کی اسائنمنٹس و مقالہ جات  

✔️ کمپوزنگ، ای بکس، یوٹیوب سکرپٹس، پوڈکاسٹ سکرپٹس  

✔️ کتابوں کی آڈیو بُکس تیار کروائیں

🌟 کیوں ہمارا انتخاب کریں؟  

✅ ماہر مصنفین اور محققین کی ٹیم

✅ منفرد، معیاری اور تحقیق پر مبنی تحریریں 

✅ وقت پر ڈیلیوری 

✅ ہر سطح کے طلبہ و اساتذہ کے لیے موزوں  

✅ آن لائن گھر بیٹھے کروائیں  

📞 ابھی واٹس ایپ پر رابطہ کریں اور اپنی تحریری ضروریات پوری کروائیں! 

 واٹس ایپ نمبر: 03424855211  

ہم آپ کے علمی و ادبی سفر کو آسان بنانے کے لیے تیار ہیں۔ اپنے خوابوں کی تحریر کو حقیقت بنائیں! �📖  

✍️ رابطہ کریں اور بہترین تحریری خدمات حاصل کریں۔

Post a Comment

0 Comments