عمار اقبال کی نظم ”شاعر کا زخم“ کا فکری و فنی جائزہ

 

عمار اقبال کی نظم ”شاعر کا زخم“ کا فکری و فنی جائزہ


عمار اقبال کی نظم ”شاعر کا زخم“ کا فکری و فنی جائزہ

تحریر : عامر حسن برہانوی 

شاعر کا زخم


زباں پہنچ نہیں رہی ہے زخم تک


ٹپک ٹپک کے جم رہا ہے خون

بس جنون ہے

درندہ بے سکون ہے


نظر تو آ نہیں رہا ہے گھاؤ پر

الاؤ جیسے آگ کا ہو پشت پر

ادھر ادھر کو سر جھٹک جھٹک کے چیختا ملعون ہے

درندہ بے سکون ہے


مجال کیا کسی کی جو دوا کرے گا 

زندگی پہ کھیل کر

نکیل کیسے ڈالتا کوئی

نکالتا کوئی بلا کو اس وبال سے

مجال کیا کسی کی جب

قریب تک پھٹک نہیں رہا کوئی


زباں پہنچ نہیں رہی ہے زخم تک


عمار اقبال کی یہ نظم ایک گہری استعاراتی اور نفسیاتی تحریر ہے جو ان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بیان کرتی ہے۔ نظم میں ”زخم“ کا استعارہ ان کی اندرونی اذیت، تخلیقی کرب اور ان کی روحانی کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ زخم نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی اور فکری اذیت کی نمائندگی کرتا ہے جو ان کے تخلیقی عمل کو جلا بخش رہا ہے۔  

یہ بھی دیکھیں : کومل جوئیہ کی غزل کا تنقیدی جائزہ 

نظم میں ”زباں“ کی زخم تک عدم رسائی شاعر کے اظہار کے مسئلے کو واضح کرتی ہے۔ یہ ایک عام تخلیقی مسئلہ ہے جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زبان ان کے درد، احساسات یا خیالات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کیفیت جدید شاعری کے اس رجحان کی نمائندگی کرتی ہے جہاں شاعر وجودی مسائل، انسانی تنہائی اور سماجی بے حسی کو بیان کرتا ہے۔  

”درندہ بے سکون“ کا استعارہ ایک اضطرابی کیفیت کی نشاندہی کرتا ہے جو انسان کے اندرونی وحشی پن، بے چینی اور عدم اطمینان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اضطراب صرف ان کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی کرب کا آئینہ دار ہے جہاں انسان اپنے ارد گرد کی بے حسی اور تلخ حقیقتوں سے جوجھ رہا ہے۔

نظم کے دوسرے حصے میں ”دوا“ اور ”نکیل ڈالنے“ کے استعارے انسان کے زخموں کو مندمل کرنے کی نااہلی اور اس کے مسئلوں کو قابو میں لانے کی ناکامی کا اظہار کرتے ہیں۔    

یہ بھی دیکھیں : انور زیب انور کی غزل کا تنقیدی جائزہ 

نظم کا اسلوب انتہائی استعاراتی اور علامتی ہے۔ عمار اقبال نے اظہار کے لیے آزاد نظم کا انداز اپنایا ہے جو موضوع کی گہرائی اور وسعت کے لیے موزوں ہے۔ نظم کی زبان سادہ لیکن معنوی گہرائی لیے ہوئے ہے۔ ”زباں پہنچ نہیں رہی“ جیسی تراکیب کے استعمال سے عمار اقبال نے اظہار کی محدودیت اور تخلیقی کرب کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ نظم کے اندر موجود استعارے اور تشبیہیں قاری کو ایک فکری اور جذباتی کیفیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ”زخم“، ”درندہ“، ”الاؤ“، اور ”نکیل“ جیسی علامتیں نظم کے فکری نظام کو تقویت بخشتی ہیں۔ یہ علامتیں عمار کی نفسیاتی اور تخلیقی حالت کو نہایت مہارت سے بیان کرتی ہیں۔  

یہ بھی دیکھیں : برقی کتاب اور اس کی اہمیت

نظم میں ردیف یا قافیہ تو نہیں لیکن داخلی موسیقیت اور روانی موجود ہے جو ہمیں ابتدا سے انتہا تک باندھے رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ عمار اقبال کی یہ نظم جدید اردو شاعری کی ایک ایسی خوب صورت مثال ہے جس میں انسان کی داخلی کشمکش، تخلیقی کرب اور سماجی تنہائی کو نہایت عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ عمار اقبال کا اسلوب اور ان سن کی علامت نگاری ہمیں سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ نظم نہ صرف ادبی حلقوں میں قابلِ تعریف ہے بلکہ عام قارئین کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments