روزنامہ ذوقِ غزل کا آٹھواں شمارہ ادب کے ذوق و شوق رکھنے والوں کے لیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔ یہ رسالہ کلاسیکی، جدید اور مابعد جدید غزل کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس شمارے میں شامل غزلیں نہ صرف فکری گہرائی بلکہ فنی مہارت کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ رسالے میں غزلوں کے ساتھ ان کے ادبی اور تنقیدی جائزے بھی شامل ہیں جو قارئین کو غزل کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں۔
یہ شمارہ جدید شاعری کے رجحانات اور کلاسیکی شاعری کی خوبصورتی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں رسالے کی ترتیب، مواد اور منتخب موضوعات اسے اردو ادب میں ایک نمایاں مقام دیتے ہیں۔
اس شمارے میں نوشی گیلانی، خالد ندیم شانی، ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، خضر حیات خضر اور ساحر لدھیانوی کی غزلیات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ساحر لدھیانوی کی غزل کا کھوار زبان میں ترجمہ بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔
نوشی گیلانی کی غزل روایتی موضوعات کو نئی جہتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ خالد ندیم شانی کی غزل زندگی کی گہرائیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور اس میں جذبات کی شدت اور فکری پختگی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی غزل محبت، یقین، اور شک کے درمیان ایک خوبصورت توازن رکھتی ہے۔ اور جدید انسانی تجربات اور احساسات کا عمدہ عکاس ہے۔ فنی اعتبار سے اس غزل کی تراکیب میں جدت اور مصرعوں میں روانی موجود ہے۔ خضر حیات کی غزل میں جذبات اور شعور کے امتزاج کا عمدہ مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اور اس میں انسان کے اندرونی دکھوں اور خارجی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ خضر حیات کی زبان پر مکمل گرفت اور اشعار کی ترتیب متاثر کن ہے۔ ساحر لدھیانوی کی غزل میں زندگی کے جذباتی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کھوار زبان میں تراجم نے ان کے اشعار کو مزید وسعت دی ہے جس سے مختلف زبانوں کے قارئین کے لیے یہ غزلیں قابل فہم بن گئی ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ذوقِ غزل کا یہ شمارہ فکری اور فنی دونوں پہلوؤں سے اعلیٰ معیار کا حامل ہے۔ شمارے میں شامل ہر غزل اپنی نوعیت میں منفرد اور ادب کے ایک خاص پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ غزلیات اور ان پہ لکھے گئے تجزیے ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے ایک علمی خزانہ ہیں۔
یہ شمارہ نہ صرف اردو غزل کی روایت کو زندہ رکھتا ہے بلکہ اس میں جدیدیت اور تجربے کی آمیزش بھی نمایاں ہے جو اسے عصر حاضر کی غزلوں کا ایک بہترین نمائندہ بناتا ہے۔ شمارے کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اس لنک پہ کلک کریں:
0 Comments