گناہ گار کا قتل یا اس کی اصلاح



میں ہمیشہ فحش مواد کے بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کے خلاف گفتگو کرتا آیا ہوں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں فحش مواد کے اشاعت کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی قانون نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والی بہت سی لڑکیاں سستی شہرت اور مقبولیت کے لیے نیم برہنہ کپڑے پہن کر ٹک ٹاک پہ بے ہودہ قسم کا ڈانس کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ جنھیں دیکھ کر جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی لڑکی اپنے ٹک ٹاک میں مینارِ پاکستان کے میدان اپنی آمد کی اطلاع دیتی ہے تو لگ بھگ چار سو لوگ اس پبلک پراپرٹی کو اپنی ذاتی پراپرٹی سمجھ لیتے ہیں۔

بہر حال آج ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کی خبر سنی تو طبیعت بے چین ہو گئی اور اس دل خراش خبر نے مجھے قلم اٹھانے پہ مجبور کر دیا۔ میں نہیں جانتا کہ ثنا یوسف ٹک ٹاک پہ کس قسم کا مواد اپلوڈ کرتی تھی لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص گناہ گار ہو تو اس کی اصلاح کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ اس کے گھر میں مہمان بن کر جاؤ اور گولیوں سے چھلنی کر کے واپس آ جاؤ۔ ممکن ہے کہ اس قتل کی کوئی اور وجہ بھی ہو لیکن جو وجہ سمجھی جا رہی ہے وہ یہی ہے کہ یہ قتل غیرت کے نام پہ کیا گیا ہے کیوں کہ مرحومہ ٹک ٹاک پر فحاشی پھیلا رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی سوشل میڈیا پہ فحاشی پھیلا رہی ہو تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے؟ کیا اس کی اصلاح نہیں کی جا سکتی؟ کیا اس کا قتل کرنا واجب ہو جاتا ہے؟ کیا قرآن و سنت میں اس کے قتل کرنے کا حکم ہے؟ کیا جرائم کی سزائیں عدالت کی بجائے عام عوام دیں گے؟ کیا قانون ہاتھ میں لینا جائز ہے؟ کیا یہ اسلام ہے؟ کیا ثنا یوسف کا قتل اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص واجب القتل بھی ہو تو بھی اسے حکومت کے حوالے کیا جائے گا اور حکومت ہی ایسے شخص کو سزا دے سکتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی مسلمان قانون ہاتھ میں لے کر اسلام کے نام پر کسی کا قتل کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام زندہ باد ہو گیا۔

ممکن ہے کہ کوئی مجھے یہ کہے کہ آپ کو اس کے قتل پہ اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے۔ مجھے تکلیف اس بات کی ہو رہی ہے کہ یہ قتل اسلام کو بدنام کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مجھے تکلیف اس بات کی ہے کہ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو لاقانونیت بڑھ جائے گی۔ کوئی بھی کسی کو بھی اسلام کے نام پر قتل کر دے گا تو لوگ اس کا احتساب کرنے کی بجائے اسے ہیرو بنا دیں گے۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اصلاح کی بجائے قتل کرنے کا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے اس موقعے پہ قرآن کی آیت یاد آ رہی ہے کہ

وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡٓا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ‏ 

الْبَقَرَة آیت 11

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جب ان سے پوچھا جائے گا کہ ایک گناہ گار مسلمان کو قتل کیوں کیا؟ جب کہ توبہ کے دروازے کھلے ہیں اور برائی سے روکنے کے لیے وعظ و تبلیغ کا حکم ہے اسلحہ چلانے کا نہیں۔ تو یہ لوگ یہی جواب دیں گے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ حقیقیت میں یہ لوگ دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ خدارا برائی کو روکنے کے لیے تبلیغ کا رستہ اپنائیے قتل و غارتگری کا نہیں۔ 

Post a Comment

0 Comments