ہم آزاد ہیں

 ہم آزاد ہیں

ہم آزاد ہیں


الحمدللہ فکر جدید میگزین کے اگست 2022ء کے شمارے میں یوم آزادی کے متعلق میری ایک تحریر شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے، ہم آزاد ہیں۔ تحریر یہاں پیش کرنے سے قبل یہ بتاتا چلوں کہ فکر جدید میگزین کے دو شمارے تو اسی بلاگ پہ شائع ہوئے تھے اس کے بعد اس بلاگ پہ کوئی شمارہ شائع نہیں ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فکر جدید میگزین کا الگ بلاگ بنا لیا تھا اور اب یہ میگزین اسی بلاگ پہ شائع ہوتا ہے۔ ذیل میں اس بلاگ کا لنک دیا جا رہا ہے۔

بلاگ کا لنک :- فکر جدید میگزین کا بلاگ 

اس میگزین کے پہلے دو شمارے یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں 

فکر جدید میگزین کے اولین شمارے

تو پیش خدمت ہے میری تحریر ، ”ہم آزاد ہیں“ 

نفسا نفسی کا عالم، مسجدوں پہ پابندی، عورت غیر محفوظ، معاشرتی بائیکاٹ، مذہب پہ چلنا دشوار، بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان، انصاف کا ملنا نا ممکن۔ مسلمان اپنا تہوار کیا منائے اسلام کا نام بھی نہیں لے سکتا۔ جو لیتا تھا اس کی زندگی چھین لی جاتی تھی۔ معاشرتی و معاشی ابتری اور زوال و بدحالی نے گویا مسلمانوں کا گھر دیکھ لیا تھا۔ پھر ایک آواز ابھری۔ علیحدہ وطن، اسلامی نظام، اسلامی قانون، اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلام کا پابند و محافظ قلعہ، لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ مسلمان خاموش نہ رہے۔ اپنے حق کے لیے لڑے۔ جانیں دیں۔ خون کی قربانیاں دیں۔ پھر بن گیا پاکستان۔ اور اب۔۔۔۔۔

نفسا نفسی کا عالم ، عورت غیر محفوظ ، بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان، انصاف کا ملنا نا ممکن، نظام پرایا، قانون پرایا، مسلمانوں پہ دہشت گردی کا لیبل۔ اور آواز ابھرتی ہے، ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔ کیا یہی ہے زندہ اور آزاد قوموں کی پہچان؟ کیا خون کی قربانیاں اسی وطن کے لیے دی گئی تھیں جہاں انصاف ملتا نہیں خریدنا پڑتا ہے۔ جہاں سودی نظام کو ترقی کا سبب کہا جاتا ہے۔ جہاں نوجوان بے روزگار پھرتے ہیں۔ جہاں بھائی، بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے۔ جہاں مسلمان ، مسلمان کو کافر کہہ رہا ہے۔ کیا مسلمانوں نے اپنا خون اسی لیے بہایا تھا؟ کیا علامہ اقبال نے اسی وطن کا خواب دیکھا تھا؟

آج پاکستان آزاد ہے تو کیوں ایک مزدور آدمی اپنی خوشیاں نہیں خرید سکتا۔ کیوں مظلوم انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ کیوں یہاں نوجوان لڑکیوں اور بچیوں کا ریپ کیا جا رہا ہے۔ کیوں؟؟؟ کیوں کہ ہم آزاد ہیں۔ ہمیں آزادی حاصل ہے۔ ہم کرپشن کر سکتے ہیں۔ ہم غریب کے آنسوؤں کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ ہم عورت کو کوٹھے پہ نچا سکتے ہیں۔ ہم مزدور کے حقوق چھین سکتے ہیں۔ ہم غیرت کے نام پہ عورت کا گلہ کاٹ سکتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پہ گالیوں اور بدتمیزیوں کا طوفان برپا کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ ہم آزاد ہیں۔ 


Post a Comment

0 Comments