جذباتی تربیت اور اس کی اہمیت
Emotional Training and its importance |
تحریر
پروفیسرعامر حسن برہانوی
جذبات جمع ہے جذبہ کی۔ جذبہ انسان کی ایسی کیفیت کا نام ہے جس کے تحت وہ ایک مخصوص سرگرمی سرانجام دیتا ہے۔ مثال کے طور پہ غصہ غم خوشی نفرت محبت وغیرہ یہ سب جذبات ہیں۔ یہ انسان کی مختلف کیفیات ہیں۔ انسان کے اندر یہ جذبات کب اور کیوں پیدا ہوتے ہیں اس کی وجوہات ہر انسان کے مزاج کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایک ہی وجہ کسی کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتی ہے تو کسی کے لیے غم کا باعث بن سکتی ہے۔ انسان کی ساری زندگی انہی جذبات کے دائرے میں گزرتی ہے۔
ایک انسان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کیسے کرتا ہے۔ کچھ لوگ یہ اظہار مثبت طریقے سے کرتے ہیں تو کچھ منفی طریقے سے۔ کچھ لوگ اپنے جذبات پہ قابو پا لیتے ہیں تو کچھ لوگ انہیں سر پہ سوار کر لیتے ہیں۔ یہ جذبات ہمارے اندر کب اور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے جذبات کو قابو کیسے کرنا ہے اور اس کا اظہار کب اور کیسے کرنا ہے۔ نیز دوسروں کے جذبات کو کیسے سمجھنا ہے۔ ان سب باتوں کا تعلق جذباتی تربیت سے ہے۔
ہمارے جذبات کا ہمارے جسم پہ گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان کا سب سے پہلا اثر ہمارے دماغ پہ پڑتا ہے۔ یہ ہماری سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو اپنے قابو میں لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہمارا دماغ ان کے قابو میں آ جائے تو ہم سے غلط فیصلے سرزد ہوتے ہیں۔ بات صرف ہمارے دماغ تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمارے جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ چناں چہ غصہ ہمارے جگر کو کمزور کرتا ہے۔ غم اور دکھ ہمارے پھیپھڑوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ پریشانی معدے کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ دباؤ یعنی سٹریس ہمارے دل کو دماغ کو شدید متاثر کرتا ہے اور خوف ہمارے گردوں کی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جذباتی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں جذبات کا اثر ہمارے رشتوں پر بھی پڑتا ہے۔ بہت سے نئے رشتے جذباتی ہم آہنگی سے وجود میں آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے جذبات کو نہ سمجھنے سے یا ان کی قدر نہ کرنے سے ہمیں بہت سے رشتوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑتا ہے۔ جہاں جذبات پہ قابو کرنا ہو وہاں ان کا اظہار کرنے اور جہاں ان کا اظہار کرنا ہو وہاں ان پہ قابو پانے سے رشتوں میں دراڑ پیدا ہو جاتی ہے۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جذباتی تربیت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جتنی ہمیں اس تربیت کی ضرورت ہے اتنا ہی ہم اس سے لاپرواہ ہیں۔ اس تربیت کا باقاعدہ اہتمام نہ تو ہمارے گھروں میں ہمارے والدین کرتے ہیں اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمارے تعلقات اور ہمارے رشتے جذبات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کی جذباتی تربیت پہ بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ اور اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے۔
0 Comments