عقل اور وحی
عقل اور وحی |
عقل اور وحی
عقل کی عموما یہ تعریف کی جاتی ہے کہ وہ قوت جو اشیاء میں موجود حسن اور قبح میں تمیز کرتی ہے۔ نفع اور نقصان کو الگ کرتی ہے۔ صحیح اور غلط میں فرق کرتی ہے۔ یہ تعریف کسی بھی حوالے سے کامل نہیں ہے۔ کیوں کہ عقل کے پاس وہ کون سا معیار ہے جس کی روشنی میں وہ حسن اور قبح میں تمیز کرے۔ نفع اور نقصان کو الگ کرے۔ وہ کون سی شے ہے جس سے عقل نے جانا کہ نفع کیا ہے اور نقصان کیا ہے۔ ہر دور میں ، ہر معاشرے میں نفع اور نقصان کے مختلف نظریات اور زاویوں کی وجہ سے معانی الگ الگ ہیں۔ چناں چہ ایک معاشرے میں نفع کا معانی ایک زاویہ میں کچھ اور ہوتا ہے تو دوسرے معاشرے میں نفع کا معانی دوسرے زاویہ میں کچھ اور ہوتا ہے۔ تو پتہ چلا کہ عقل بذات خود نفع اور نقصان کو طے نہیں کر سکتی۔ بلکہ اسے کسی نہ کسی مشاہدہ ، تجربہ اور معیار کی ضرورت ہے۔ اسے ایک کامل علم کی ضرورت ہے جس کی روشنی میں وہ اشیاء کی معرفت حاصل کر سکے۔ نفع اور نقصان کو سمجھ سکے۔ پس ثابت ہوا کہ عقل کی یہ تعریف نامکمل ہے۔
تو پھر عقل کی تعریف کیا ہے؟ عقل مخاطب رب العالمین ہے۔ عقل اللہ تعالی کی لاتعداد مخلوقات میں سے وہ واحد مخلوق ہے جس سے اللہ تعالی نے خطاب فرمایا ہے۔ پس عقل کا کام یہ ہے کہ وہ خدا کی آواز کو سنے۔ اس کے خطاب کو سمجھے اور اس میں غوروفکر کرے۔ اور خدا کا کلام اور خطاب ہی وہ معیار ہے جس کی روشنی میں عقل اشیاء کی معرفت حاصل کرتی ہے۔ نفع اور نقصان میں تمیز کرتی ہے۔ اشیاء میں موجود حسن اور قبح کی نشان دہی کرتی ہے۔ پس اس گفتگو سے ثابت ہوا کہ عقل کی تخلیق کا مقصد خدا کے خطاب کو سننا اور سمجھنا ہے۔
وحی کیا ہے؟ وحی خدا کا خطاب اور کلام ہے۔ یہی وہ خطاب ہے جسے سننے اور سمجھنے کے لیے عقل کو تخلیق کیا گیا ہے۔
عقل اور وحی کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ عقل کی مثال تیزرفتار گھوڑا ہے۔ وحی کی مثال راستوں اور منزل پر مشتمل ایک نقشہ ہے۔ منزل تک نہ صرف یہ کہ پہنچنے کے لیے بلکہ بہت جلدی پہنچنے کے لیے یہ دونوں چیزیں بہت ضروری ہیں۔ وحی ہدایت دیتی ہے۔ عقل ہدایت کی روشنی میں چلتی ہے۔ اگر وحی نہ ہو تو عقل کی تخلیق بے معنی ہو جائے۔ اگر عقل نہ ہو تو وحی ہدایت کسے کرے؟ پس عقل اور وحی لازم و ملزوم ہیں۔
انسان جب وحی اور عقل میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیتا ہے تو گمراہ ہو جاتا ہے۔ اگر انسان محض عقل کو اپنا لے اور وحی چھوڑ دے تو اپنی منزل کا نام و نشان بھی نہیں پا سکتا۔ اگر وحی کو پکڑ لے اور عقل کو چھوڑ دے یعنی وحی میں غوروفکر اور تدبر نہ کرے تو بھی اپنی منزل کو نہیں پا سکتا۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی عقل کو وحی کا معیار دے۔ وحی کی بذریعہ عقل تفہیم و تشریح کرے۔ اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں وحی اور عقل کا ساتھ نہ چھوڑے۔
0 Comments